Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
1 - 112
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

کتاب الشرکۃ

(احکام شرکت کا بیان )
مسئلہ ۱: ۱۶جمادی الآخر ۱۳۳۸ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہمارے دیار میں دستور ہے کہ پاٹ سن کی ڈھیر علیحدہ علیحدہ پانی میں بھگوتے ہیں، امسال کنوار کے مہینہ میں بہت سخت طوفان اور بارش کے سبب سے سب کے ڈھیر کو اکٹھا کرڈالا، بعدہ اکثر نے نہیں لیا بعض نے اس مال کو قبض کیا اور انتظام دے کر طیار کیا اب قبض کرنے والے بعض ان اکثر کو کہتے ہیں تمہارا جتنا ہولے لو، وہ لوگ کہتے ہیں جب ہمارا مال کا کوئی شناخت نہیں ہم نہیں لیتے، اب قبض کرنے والے لوگ خود خرچ کریں یا فقرا ء اور مساکین کو تقسیم کردیں اور قبض کرنے والے پر حلال ہوتو فقراء اور غنا ہونے میں برابر ہے یاتفاوت ہے؟
الجواب

جب وہ لوگ نہیں لیتے تو قابضین صرف اپنا حصہ لے لیں باقی فقراء پر تصدق کردیں، ان میں اگر کوئی فقیر ہے تو اسے بھی دے سکتے ہیں، واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲: از کوہ نینی تال ۱۲جمادی الاول ۱۳۰۸ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ محمود بیگ و عبدالغفور بیگ دو بھائیوں کی دکان کوہِ نینی تال پر تھی، دونوں نے مال واسبابِ دکان اپنے باپ کے ترکہ سے پایا اور دونوں یکجا کارکن رہے اور یکجا ان کا خوردو نوش تھا، کوئی غیریت کسی بات میں نہ تھی، محمود بیگ مع اپنی والدہ ولایتی بیگم کے آمدنی دکان سے چھ سوروپے حج کو گیا اور سب سامان دکان عبدالغفور بیگ کے سپرد کرگیا، بعد ان کی واپسی کے پھر عبدالغفور بیگ اسی آمدنی سے تین سوروپے کر لے کر حج کو گیا اوراپنی زوجہ امراؤ بیگم اور ایک لڑکا یکما ہہ عبدالشکور اپنی والدہ اور بھائی کے پاس چھوڑگیا، راستہ میں مقام احمد آباد میں اس کی طبیعت بگڑی، کل اسباب اسٹیشن پولیس میں داخل کرکے محمود بیگ کو تار دیا، وہ فوراً روانہ ہوا، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ عبدالغفور بیگ نے انتقال کیا، وہ روپیہ اور اسباب جو اسٹیشن میں تھامحمود بیگ واپس لایا، اس صورت میں اس روپے کی نسبت کیا حکم ہے؟ یہ صرف محمود بیگ کو ملے گا یا وارثان عبدالغفور بیگ بھی اس سے حصہ پائیں گے اور کیونکر پائیں گے؟ بینواتوجروا(بیان کیجئے اجر پائیے۔ت)
الجواب

جبکہ وہ تین سو روپیہ اسی دکان مشترک کی آمدنی تھا جس کے دونوں بھائی بحصہ مساوی مالک تھے تو وہ روپیہ بھی نصف نصف ان دونوں کی ملک تھا، سائل مظہر کہ روپیہ عبدالغفور بیگ اپنے بھائی کی اجازت سے لے گیا تھا اب یہ اجازت قرض تھی خواہ ہبہ خواہ اباحت،بہر حال کل یا بعض جس قدر باقی تھا جسے محمود بیگ احمد آباد سے لے آیا اس کے مقدار نصف میں محمود بیگ کا حق ہے اور نصف عبدالغفور بیگ کا کہ برتقدیر عدم موانع ووارث آخر وتقدیم مایقدم چوبیس سہام ہوکر اسکے وارثوں پر یوں تقسیم ہوگا:

امراؤ بیگم___۳

ولایتی بیگم___۴

عبدالشکور___۱۷

بحالت قرض تو ظاہر کہ نصف مضمون تھا تو ما ؎ /کا مطالبہ محمود بیگ کا ترکہ عبدالغفور پر رہا خواہ اسی روپے سے ادا کریں یا اس کے غیر سے "لان الدیون تقضی بامثالھا"(کیونکہ قرض اپنی مثل سے ادا کیا جاتا ہے۔ت) اور بحالت اباحت بھی ظاہر کہ اباحت بعد موت باطل ہوجاتی ہے،
لانھا لیست تملیکا حتی تجری فیہا الارث بل تحلیل تصرف للمباح لہ، فاذا مات او مات المبیح بطلت امافی الثانی فلانتقال الملک کما علل بہ فی الخیریۃ وامافی الاول فلعدم الملک لینتقل کما اشرنا الیہ۔
کیونکہ یہ تملیک نہیں ہے تاکہ اس میں وراثت جاری ہو، بلکہ اس کے لئے ایک مباح چیز میں تصرف کو حلال قرار دینا ہے، تو جب وہ یا مباح کرنے والا فوت ہوجائے گا تو باطل ہوگی، لیکن ثانی میں تو ملکیت کے انتقال کی وجہ سے جیسا کہ فتاوٰی خیریہ میں اس کو وجہ بتایا ہے مگر پہلی میں ملکیت نہیں تاکہ منتقل کیا جائے جیسا کہ ہم نے اس کا اشارہ دیا ہے۔(ت)
اور بحالت ہبہ تین سو میں سے ڈیڑھ سو  کاہبہ قابل قسمت میں ہبہ مشاع ہے
کمانص علیہ علماؤنافی غیرما کتاب
(جیسا کہ اس پر ہمارے علماء نے متعدد کتب میں نص فرمائی ہے۔ت) اور ایسا ہبہ مذہب صحیح پر محض بے اثر کہ بعض قبض بھی مورث ملک نہیں ہوتا جب تک جدا کرکے واہب کی طرف سے تسلیم نہ واقع ہو
کما حققہ فی الخیریۃ والعقودالدریۃ وردالمحتار وغیرہا
 (جیسا کہ خیریہ، عقود دریہ اور ردالمحتار وغیرہ میں اس کی تحقیق فرمائی ہے۔ت) تو وہ ڈیڑھ سو بدستور ملک محمود بیگ پر رہے، ان دونوں صورتوں میں بعینہ انہیں روپوں کانصف محمود بیگ کو ملنا چاہئے، غرض باقی کی نصف مقدار میں ہر طرح محمود بیگ کااستحقاق ثابت، ہاں جس قدر عبدالغفور بیگ صرف کر چکا تھا اس کا نصف بھی محمود بیگ کو ملے یانہیں، یہ محل نظر ہے، اگر ثابت ہو کہ وہ روپے اس نے قرضاً یا ہبۃً دئے تھے تو بیشک ملنا چاہئے
"لضمان القرض وبطلان الھبۃ فانقلبت مضمونۃ بالاستھلاک"
 (قرض کے ضمان اور ہبہ کے بطلان کے سبب لہذا ہلاک کرنے پر ضمان ہوگا۔ت) اور اگر اباحۃً دئے تھے یعنی مجرالینا منظور نہ تھا نہ ان ڈیڑھ سو کاعبدالغفور بیگ کو مالک کیا تھا بلکہ جیسے بحالتِ اتحاد ویکجہتی ایک مال دوسرے کے خرچ میں آجاتا ہے اور اس کا معاوضہ مقصود نہیں ہوتا یوں دئے تھے تو جو صرف ہوگئے ہوگئے ، ان کا  بدل محمود بیگ کونہیں مل سکتا
"لان الاباحۃ تصح فی المشاع ولاتضمن"
 (کیونکہ اباحت حصص والی چیز میں صحیح ہوتی ہے اور اسی پرضمان نہیں آتا ہے۔ت) اور بیشک عرف ناس پر لحاظ سے یہاں ظاہر یہی صورت ہے اور ظاہر پر عمل واجب جب تک دلیل سے اس کا خلاف نہ ثابت ہو، کہ عرف اعظم دلائل شرعیہ سے ہے۔
خیریہ میں ہے:
ان کان العرف قاضیا بانھم یدفعونہ علی وجہ البدل یلزم الوفاء بہ، وان کان العرف بخلاف ذٰلک بان کانوالا ینظرون فی ذٰلک الٰی اعطاء البدل فلارجوع فیہ بعد الھلاک والاستھلاک والاصل فیہ ان المعروف عرفا کالمشروط شرعا۱؎اھ ملخصاً۔
اگر عرف بتائے کہ لوگ اس کو بدلہ کے طور پر دیتے ہیں تو پھر بدلہ پورا کرنا لازم ہے اور اگر عرف اس کے خلاف ہو کہ لوگ اس میں عوض کے منتظر نہیں ہوتے تو پھر ہلاک کرنے  ہلاک ہوجانے پر رجوع نہیں کیا جائے گا، اور اس کاقاعدہ یہ ہے کہ عرف میں مشہور معاملہ شرعاً مشروط کی طرح ہوتا ہے اھ ملخصاً(ت)
 (۱؎ الفتاوٰی الخیریہ     کتاب الھبۃ  دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۱۱۱)
ظہیریہ میں امام فقیہ ابواللیث رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ سے منقول :
التعویل علی العرف حتی یوجد وجہ یستدل بہ علی غیرما قلنا۲؎۔
عرف پر اعتماد ہوگا اگر موجود ہوتو یہ قابل استدلال وجہ بن سکے گا جیسا کہ بہت دفعہ ہم ذکر کرچکے ہیں(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ظہیریۃ)
ولہذا با آنکہ اگر زید عمرو کو کچھ روپے دے کہ خرچ کرے، یااپنی حاجتوں میں اٹھا، یا ان سے راہِ خدا میں جہاد کر، تو قرض ٹھہرتا ہے اگر شوہر عورت کو دے کہ کپڑے بناکر میرے پاس پہن ہبہ ٹھہرے گا، یونہی طالب علم کو لکڑیاں وغیرہ دیں کہ اپنی کتابوں میں صرف کیجئے ہبہ قرار پائے گا کہ یہاں عرف قاضی تملیک ہے۔
عقودالدریہ میں ہے:
دفع الیہ دراھم فقال لہ انفقھا ففعل فھو قرض کما لوقال اصرفھا الٰی حوائجک۱؎۔
ایک نے دوسرے کو کچھ دراہم دئے کہ خرچ کرو تو اس سے لے کر خرچ کرلئے تو یہ قرض قرار پائے گا جیسے کوئی یوں کہے کہ یہ اپنی ضروریات میں صرف کرو(ت)
 (۱؎ العقودالدریۃ تنقیح الفتاوی الحامدیۃ    کتاب الھبۃ         تاجران کتب ارگ بازار قندھار افغانستان     ۲/ ۹۱)
عالمگیریہ میں ہے:
رجل قال لاٰخر خذ ھذا المال واغزفی سبیل اﷲ عزوعلا فھو قرض کذافی الظہیریۃ۲؎۔
اگر یوں کہا یہ مال لو اور فی سبیل اﷲ جہاد کرو، تو یہ قرض شمار ہوگا، ظہیریہ میں یونہی ہے(ت)
 (۲؎ الفتاوٰی الہندیۃ       کتاب الھبۃ    الباب الاول     نورانی کتب خانہ پشاور    ۴/ ۳۷۵)
ردالمحتار میں ہے:
اعطی لزوجتہ دنانیر لتتخذبھا ثیابا وتلبسھا عندہ فدفعتھا معاملۃ فھی لھا قنیۃ۳؎۔
خاوند نے بیوی کو کچھ دینار دئے کہ وہ کپڑا لے کر گھر میں لباس کے طور پہنے تو بیوی نے وہ دینار آگے معاملہ کے طور پر کسی کو دے دئے تو بیوی کو اختیار ہے،قنیہ(ت)
 (۳؎ ردالمحتار کتاب الھبۃ داراحیاء التراث العربی بیروت۴/ ۵۰۹)
ہندیہ میں ہے:
قال لمتفقہ اصرف ھذہ الخشبۃ الی کتبک فھو ھبۃ والصرف الی الکتب مشورۃ کذا فی القنیۃ ۴؎۔
کسی نے طالبعلم کو کہا کہ یہ لکڑی لے جا کر اپنی کتب کے لئے استعمال کرو، تو یہ ہبہ ہوگا، اور کتب کے لئے استعمال صرف مشورہ ہوگا، جیسا کہ قنیہ میں ہے(ت)
 (۴؎ الفتاو ی الھندیۃ  کتاب الہبۃ   الباب الاول  نورانی کتب خانہ پشاور  ۴/ ۳۷۶)
اسی طرح اگر کسی کو مثلاً قاب پلاؤیا اور کوئی عاریت کا نام کرکےدیا تو قرض ٹھہرے گا"
لان عاریۃ مالاینتفع بہ الابالاستھلاک قرض"
 (کیونکہ ایسی چیز کو عاریۃً دینا جس کو صرف کرکے ہی نفع لیا جاسکتا ہے تو وہ قرض ہوتا ہے۔ت) اور ان میں باہم دوستی و اتحاد ہے تواباحت "
لمکان العرف"
 (اباحت ہے کیونکہ یہی عرف ہے۔ت)
درمختار میں ہے:
لواعارہ قصعۃ ثرید فقرض ولو بینھما مباسطۃ فاباحۃ۱؎۔
اگر ثرید کا پیالہ عاریۃً دیا تو قرض ہوگا اور لین دین والوں میں بے  تکلفی ہوتو یہ اباحت ہے(ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب العاریۃ    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۵۶)
بالجملہ مدار عرف پر ہے اور یہاں عرف قاضی اباحت کہ جو بھائی باہم یکجا رہتے اور اتفاق رکھتے اور خورد ونوش وغیرہا مصارف میں غیریت نہیں برتتے، ان کی سب آمدنی یکجا رہتی ہے، اور جسے جو حاجت پڑے بے تکلف خرچ کرتا اور دوسرا اس پر راضی ہوتا اور واپسی کا ارادہ نہیں رکھتا، نہ وہ آپس میں یہ حساب کرتے ہیں کہ اس دفعہ تیرے خرچ میں زائد آیا اتنا مجرا دے، نہ صرف کے وقت ایک دوسرے سے کہتا ہے میں نے اس روپے سے اپنے حصے کا تجھے مالک کردیا بلکہ یہی خیال کرتے ہیں کہ باہم ہمارا ایک معاملہ ہے جس کا مال جس کے خرچ میں آجائے کچھ پروا نہیں، اور یہ عین معنی اباحت وتحلیل ہے توجب تک اس کاخلاف دلیل سے ثابت نہ ہوگا اباحت ہی قرار دیں گے اور زر صرف شدہ کا نصف محمود بیگ کو نہ ملے گا، واﷲ تعالٰی اعلم بالصواب
Flag Counter